Friday, October 26, 2012

میں نگاہ اور آسماں ہے وہ


جانے کیوں کر یقین ہے سالک
کوئی مجھ سے الگ تو ہے لیکن
وہ میری ذات ہی کا حصہ ہے
جاگتے، سوتے، بیٹھتے، اٹھتے
ہر گھڑی ساتھ ساتھ رہتا ہے
میں اسے دیکھ تو نہیں پاتا
اس کو چھونا بھی خوش خیالی ہے
ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ میں

اس سے ملنے کی چاہ میں اکثر
اپنے اندر اترتا رہتا ہوں
وہ کبھی سامنے نہیں آتا
گفتگو پھر بھی کرتا رہتا ہوں
کون ہے، کیسا ہے، کہاں ہے وہ
رہ گذر میں ہوں، کارواں ہے وہ
ایک احساسِ خوش گماں ہے وہ
میں نگاہ اور آسماں ہے وہ

سالک صدیقی

No comments:

Post a Comment

Flickr