جانے کیوں کر یقین ہے سالک
کوئی مجھ سے الگ تو ہے لیکن
وہ میری ذات ہی کا حصہ ہے
جاگتے، سوتے، بیٹھتے، اٹھتے
ہر گھڑی ساتھ ساتھ رہتا ہے
میں اسے دیکھ تو نہیں پاتا
اس کو چھونا بھی خوش خیالی ہے
ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ میں
اس سے ملنے کی چاہ میں اکثر
اپنے اندر اترتا رہتا ہوں
وہ کبھی سامنے نہیں آتا
گفتگو پھر بھی کرتا رہتا ہوں
کون ہے، کیسا ہے، کہاں ہے وہ
رہ گذر میں ہوں، کارواں ہے وہ
ایک احساسِ خوش گماں ہے وہ
میں نگاہ اور آسماں ہے وہ
سالک صدیقی
اپنے اندر اترتا رہتا ہوں
وہ کبھی سامنے نہیں آتا
گفتگو پھر بھی کرتا رہتا ہوں
کون ہے، کیسا ہے، کہاں ہے وہ
رہ گذر میں ہوں، کارواں ہے وہ
ایک احساسِ خوش گماں ہے وہ
میں نگاہ اور آسماں ہے وہ
سالک صدیقی
No comments:
Post a Comment