- جانے کیا بات ہے
آتی ہے لبوں تک
تو ٹھہر جاتی ہے
جانے کیا لفظ ہیں
اظہار کے محتاج ابھی
جانے اس دل کی کوئی دھڑکن بھی
منتظر ہے کہ کوئی اس کو
محبت کی سماعت سے سنے
جانے آنکھوں سے کوئی اشک
ٹپکنے سے گریزاں ہے کہ وہ
اپنی حرمت کے تقدس کو کسے ھدیہ کرے
جانے کیا خواب سنبھالے ہوئے, آنکھیں میری
رات بھر سونے سے گھبراتی ہیں
جانے کیا بات ہے
اک پل کو سکوں ہے نہ قرار
اب تو رکھتا بھی نہیں وقت کے مصرف کا شمار
زندگی یونہی اچانک جیسے
بے یقینی کے کسی موڑ پہ آ ٹھہری ہے
جانے کیا خواہش بے نام مرے ہاتھوں میں
پھر کسی کُن کے لئے مثل دعا ٹھہری ہے
جانے اس کُن کے مقدر میں کبھی
فیَکُن ہونا لکھا ہے کہ نہیں!
سالک صدیقی
20:38 . . . . . 29-10-2012
Monday, October 29, 2012
خود کلامی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment