Tuesday, October 30, 2012

اک شبیہہ


مرے گماں کے کینوس پہ
آج کل
ابھر رہی ہے
اک شبیہہ
جسے
مرے یقیں کا فریم چاھیئے

سالک صدیقی

پیاسی آنکھیں

نیند کی پیاسی آنکھیں بھی
اب مری طرح
خوابوں کا بوجھ سنبھالے
آدھی رات گذرتے ہی
بوجھل ہونے لگتی ہیں
نئی سحر کے دامن کو
تشنہ امیدوں کے ساون میں
چپکے سے دھونے لگتی ہیں

Monday, October 29, 2012

خود کلامی



  1. جانے کیا بات ہے
    آتی ہے لبوں تک
    تو ٹھہر جاتی ہے
    جانے کیا لفظ ہیں
    اظہار کے محتاج ابھی
    جانے اس دل کی کوئی دھڑکن بھی

    منتظر ہے کہ کوئی اس کو
    محبت کی سماعت سے سنے
    جانے آنکھوں سے کوئی اشک
    ٹپکنے سے گریزاں ہے کہ وہ
    اپنی حرمت کے تقدس کو کسے ھدیہ کرے
    جانے کیا خواب سنبھالے ہوئے, آنکھیں میری
    رات بھر سونے سے گھبراتی ہیں
    جانے کیا بات ہے
    اک پل کو سکوں ہے نہ قرار
    اب تو رکھتا بھی نہیں وقت کے مصرف کا شمار
    زندگی یونہی اچانک جیسے
    بے یقینی کے کسی موڑ پہ آ ٹھہری ہے
    جانے کیا خواہش بے نام مرے ہاتھوں میں
    پھر کسی کُن کے لئے مثل دعا ٹھہری ہے
    جانے اس کُن کے مقدر میں کبھی
    فیَکُن ہونا لکھا ہے کہ نہیں!

    سالک صدیقی

    20:38 . . . . . 29-10-2012

Friday, October 26, 2012

گستاخی


منزلیں بتاتے ہو
سمت بھی دکھاتے ہو
ساتھ تو چلو کبھی
رہبری کے دعوے سے
رستے، گہرے زخموں تک
اک سفر کرو کبھی

منزلوں سے واقف ہو
راستوں سے نا واقف!

سالک صدیقی

میں نگاہ اور آسماں ہے وہ


جانے کیوں کر یقین ہے سالک
کوئی مجھ سے الگ تو ہے لیکن
وہ میری ذات ہی کا حصہ ہے
جاگتے، سوتے، بیٹھتے، اٹھتے
ہر گھڑی ساتھ ساتھ رہتا ہے
میں اسے دیکھ تو نہیں پاتا
اس کو چھونا بھی خوش خیالی ہے
ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ میں

اس سے ملنے کی چاہ میں اکثر
اپنے اندر اترتا رہتا ہوں
وہ کبھی سامنے نہیں آتا
گفتگو پھر بھی کرتا رہتا ہوں
کون ہے، کیسا ہے، کہاں ہے وہ
رہ گذر میں ہوں، کارواں ہے وہ
ایک احساسِ خوش گماں ہے وہ
میں نگاہ اور آسماں ہے وہ

سالک صدیقی

سوچ


سناٹے کی چادر اوڑھے
چاندنی شب کے
سوئے ہوئے ماحول میں
گھر آنگن میں بیٹھا
سوچ رہا ہوں
مرے محلے کے سب بکرے
چپ کیوں ہیں
کہ آج تو عید کی رات نہیں
کیا کہتے ہو
یہ انہونی بات نہیں؟

سالک صدیقی

26-10-2012

(یارو ۔ ۔ ۔ کیا اب بندہ سوچنا بھی چھوڑ دے؟)

اس دشت خموشی میں

اس دشت خموشی میں
 چلو ہم بھی کسی جانب
بے سمت نکل جائیں
امکان برابر ہے
اوراق مقدر پر
حالات الگ سے ہوں
ماحول جدا سا ہو
احباب بدل جائیں
اس دشت خموشی میں
اب دل نہیں لگتا ہے
سب چین سے سوتے ہیں
اک شخص اکیلا سا
دن میں بھی نہیں سوتا
اور رات کو جگتا ہے

 
سالک صدیقی
26-10-2012

ڈوبتا سورج


دور افق کی ممتا سی آغوش کو
اپنی دن بھر کی
خاموش تھکن کا بوجھ تھما کر
دھرتی کے اِس پار
بظاہر ڈوبتا سورج
دھرتی کے اُس پار
اندھیروں کے گھونگھٹ سے
نئے اجالے بانٹ رہا ہے
امیدوں کی ایک نئی صبح کے دامن سے
مایوسی کے سب کانٹے چھانٹ رہا ہے

سالک صدیقی

 23-10-2012

عید مبارک

کس کو لکھوں، کسے کہوں میں؟
میری بستی کے لوگوں پر
اندھی موت کا قہر مسلط
لمحہ لمحہ خوف، اذیت، ظلم، عذاب
کیسی خوشیاں، کیسی عید
راحت خواب، سکون بعید
پھر بھی سالک، رسم جہاں ہے
میری چپ کا مطلب
میری بے حسی نہ سمجھی جائے
سو، ہر خاص و عام کو
دل سے عید مبارک !

سالک صدیقی

25-10-20

مرے چارہ گر



مرے چارہ گر

تجھے کیا خبر
مرا درد کیا ہے
مرض ہے کیا
مرے مہرباں
تری اک نگہہ
مری تشنگی کا علاج ہے

سالک صدیقی

21:30 -------- 25-10-2012

بے قراریاں


طبیعتیں اداس
نا امیدیاں
خوشی ہے نہ سکون
بے قراریاں
محبتیں، کہ رسم ہو گئی ہیں
اور چاھتیں رواج
اف، منافقت زدہ سماج
آئیے دعا کریں

کہ اب تو وہ ہوا چلے
کہ جو دلوں کا حال
بس بدل ہی دے

سالک صدیقی

01:45 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26-10-2012

(پچھلے چار پانچ گھنٹوں کے دوران کچھ فیس بک احباب سے پس پردہ گفتگو کے بعد بس دو تین منٹ میں ہی موزوں ہو گئی)

ایک احساس



سناٹے کی چادر اوڑھے

چاندنی شب کے
سوئے ہوئے ماحول میں
گھر آنگن میں بیٹھا
سوچ رہا ہوں
مرے محلے کے سب بکرے
چپ کیوں ہیں
کہ آج تو عید کی رات نہیں

کیا کہتے ہو
یہ انہونی بات نہیں؟

سالک صدیقی

02:10 ۔ ۔ ۔ ۔ 26-10-2012

(یارو ۔ ۔ ۔ کیا اب بندہ سوچنا بھی چھوڑ دے؟)

مسافر شب



اس دشت خموشی میں

چلو ہم بھی کسی جانب
بے سمت نکل جائیں
امکان برابر ہے
اوراق مقدر پر
حالات الگ سے ہوں
ماحول جدا سا ہو
احباب بدل جائیں
اس دشت خموشی میں
اب دل نہیں لگتا ہے
سب چین سے سوتے ہیں
اک شخص اکیلا سا
دن میں بھی نہیں سوتا
اور رات کو جگتا ہے

سالک صدیقی

03:35 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26-10-2012

خود کلامی بھی گناہ


رات گئے جب
سب آوازیں بند ہوئیں
اور چاند کہیں آغوش مغرب میں اترا
سوچا، کچھ اپنے آپ سے باتیں کی جائیں

لب بستہ، آنکھیں بند کیے
بس دل پر ذرا توجہ کی
سناٹا چیخ پڑا
اوپاگل، او گستاخ
جا کر سو جا
ہمیں تو بے آرام نہ کر!

سالک صدیقی

04:30. . . . 26-10-2012

Flickr