نیند کی پیاسی آنکھیں بھی اب مری طرح خوابوں کا بوجھ سنبھالے آدھی رات گذرتے ہی بوجھل ہونے لگتی ہیں نئی سحر کے دامن کو تشنہ امیدوں کے ساون میں چپکے سے دھونے لگتی ہیں
جانے کیا بات ہے آتی ہے لبوں تک تو ٹھہر جاتی ہے جانے کیا لفظ ہیں اظہار کے محتاج ابھی جانے اس دل کی کوئی دھڑکن بھی
منتظر ہے کہ کوئی اس کو محبت کی سماعت سے سنے جانے آنکھوں سے کوئی اشک ٹپکنے سے گریزاں ہے کہ وہ اپنی حرمت کے تقدس کو کسے ھدیہ کرے جانے کیا خواب سنبھالے ہوئے, آنکھیں میری رات بھر سونے سے گھبراتی ہیں جانے کیا بات ہے اک پل کو سکوں ہے نہ قرار اب تو رکھتا بھی نہیں وقت کے مصرف کا شمار زندگی یونہی اچانک جیسے بے یقینی کے کسی موڑ پہ آ ٹھہری ہے جانے کیا خواہش بے نام مرے ہاتھوں میں پھر کسی کُن کے لئے مثل دعا ٹھہری ہے جانے اس کُن کے مقدر میں کبھی فیَکُن ہونا لکھا ہے کہ نہیں!
جانے کیوں کر یقین ہے سالک کوئی مجھ سے الگ تو ہے لیکن وہ میری ذات ہی کا حصہ ہے جاگتے، سوتے، بیٹھتے، اٹھتے ہر گھڑی ساتھ ساتھ رہتا ہے میں اسے دیکھ تو نہیں پاتا اس کو چھونا بھی خوش خیالی ہے ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ میں
اس سے ملنے کی چاہ میں اکثر اپنے اندر اترتا رہتا ہوں وہ کبھی سامنے نہیں آتا گفتگو پھر بھی کرتا رہتا ہوں کون ہے، کیسا ہے، کہاں ہے وہ رہ گذر میں ہوں، کارواں ہے وہ ایک احساسِ خوش گماں ہے وہ میں نگاہ اور آسماں ہے وہ سالک صدیقی
دور افق کی ممتا سی آغوش کواپنی دن بھر کی خاموش تھکن کا بوجھ تھما کر دھرتی کے اِس پار بظاہر ڈوبتا سورج دھرتی کے اُس پار اندھیروں کے گھونگھٹ سے نئے اجالے بانٹ رہا ہے امیدوں کی ایک نئی صبح کے دامن سے مایوسی کے سب کانٹے چھانٹ رہا ہے
کس کو لکھوں، کسے کہوں میں؟ میری بستی کے لوگوں پر اندھی موت کا قہر مسلط لمحہ لمحہ خوف، اذیت، ظلم، عذاب کیسی خوشیاں، کیسی عید راحت خواب، سکون بعید پھر بھی سالک، رسم جہاں ہے میری چپ کا مطلب
میری بے حسی نہ سمجھی جائے سو، ہر خاص و عام کو دل سے عید مبارک !