Monday, December 5, 2016

کھوج میں ہوں


امارتیں بانٹتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقیروں کے کھوج میں ھوں
میں حیرتوں کے نئے جزیروں کے کھوج میں ھوں
۔
محبتوں کی نیاز ھو جن کے در کی پہچاں
بتوں کی بستی میں ایسے پِیروں کے کھوج میں ھوں
۔
سالک صدیقی
11-06 ۔۔۔۔ 25-11-2016

Wednesday, October 9, 2013

30-12-2011




کاش

وہ مجھ میں اُتر کر دیکھتا

صرف سطحِ آب سے

جو چاھتا تھا ماپنا، سالک

مری گہرائیاں

Thursday, November 1, 2012

وہ آبلہ پا


محبتوں کے چراغ لے کر
وہ آبلہ پا
جو ایک مدت سے
ہم سفر کی تلاش میں تھا
وہ حیرتوں کی دبیز دھند
اور بے نشاں راستوں کا

بھٹکا ہوا مسافر
نہ جانے چپ چاپ، تنہا
کن منزلوں کی جانب نکل گیا ہے

سالک صدیقی

Tuesday, October 30, 2012

اک شبیہہ


مرے گماں کے کینوس پہ
آج کل
ابھر رہی ہے
اک شبیہہ
جسے
مرے یقیں کا فریم چاھیئے

سالک صدیقی

پیاسی آنکھیں

نیند کی پیاسی آنکھیں بھی
اب مری طرح
خوابوں کا بوجھ سنبھالے
آدھی رات گذرتے ہی
بوجھل ہونے لگتی ہیں
نئی سحر کے دامن کو
تشنہ امیدوں کے ساون میں
چپکے سے دھونے لگتی ہیں

Monday, October 29, 2012

خود کلامی



  1. جانے کیا بات ہے
    آتی ہے لبوں تک
    تو ٹھہر جاتی ہے
    جانے کیا لفظ ہیں
    اظہار کے محتاج ابھی
    جانے اس دل کی کوئی دھڑکن بھی

    منتظر ہے کہ کوئی اس کو
    محبت کی سماعت سے سنے
    جانے آنکھوں سے کوئی اشک
    ٹپکنے سے گریزاں ہے کہ وہ
    اپنی حرمت کے تقدس کو کسے ھدیہ کرے
    جانے کیا خواب سنبھالے ہوئے, آنکھیں میری
    رات بھر سونے سے گھبراتی ہیں
    جانے کیا بات ہے
    اک پل کو سکوں ہے نہ قرار
    اب تو رکھتا بھی نہیں وقت کے مصرف کا شمار
    زندگی یونہی اچانک جیسے
    بے یقینی کے کسی موڑ پہ آ ٹھہری ہے
    جانے کیا خواہش بے نام مرے ہاتھوں میں
    پھر کسی کُن کے لئے مثل دعا ٹھہری ہے
    جانے اس کُن کے مقدر میں کبھی
    فیَکُن ہونا لکھا ہے کہ نہیں!

    سالک صدیقی

    20:38 . . . . . 29-10-2012

Friday, October 26, 2012

گستاخی


منزلیں بتاتے ہو
سمت بھی دکھاتے ہو
ساتھ تو چلو کبھی
رہبری کے دعوے سے
رستے، گہرے زخموں تک
اک سفر کرو کبھی

منزلوں سے واقف ہو
راستوں سے نا واقف!

سالک صدیقی

Flickr